Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر6

ایک ماہ ہوگیا تھا ہانیہ کو اکیڈمی جاتے۔۔۔اس دوران ایک دن بھی اسکی ملاقات شازل سے نہیں ہوئی تھی۔۔۔کافی بار ہانیہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی پر وہ مسلسل اسے نظر انداز کرتا تھا۔۔۔کھانے کے ٹیبل پر بھی وہ کم ہی آتا تھا۔۔۔اگر آبھی جاۓ تو نانو تھوڑی بہت گپ شپ کے فوراً بعد اپنے کمرے میں خود کو بند کرلیتا تھا۔۔۔ہانیہ نے بھی اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔۔اور اپنی پوری توجہ اپنی پڑھائی پر لگا دی۔۔۔ کیسی ہیں آپی۔۔۔ بلکل ٹھیک تم کیسی ہو۔۔۔؟؟ہانیہ نے ہمسائے کے گھر سے آئی بچی کو محبت سے جواب دیا جس کی عمر تقریباً چودہ سال تھی۔۔۔ ٹھیک ہوں آپی۔۔۔آپ کی نانو بتا رہی تھی آپ کو آئے ایک ماہ ہوگیا ہے پر آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔وہ منہ بنا کر بولی۔۔۔ نہیں اریج ایسی بات نہیں ہے۔۔۔بس آتے ہی اپنی پڑھائی میں بزی ہوگئی۔۔۔آج سنڈے تھا تو میں سوچ ہی رہی تھی کہ نانو کے ساتھ آپ کےگھر آؤں۔۔۔پر یہ تو اچھا ہوا کہ آپ خود ہی آگئی۔۔۔ ارے آپ کو تو میرا نام بھی یاد ہے۔۔۔اریج کو لگا تھا وہ دو سال بعد آئی ہے شاید اسکا نام بھول گئی ہو۔۔۔ اس پہلے وہ کوئی جواب دیتی اسکی نظر شازل پر پڑی جو نانو کے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ مجھے جن لوگو سے محبت ہوجاۓ میں انھے نہیں بھولتی۔۔۔میں حیران تو ہوتی ہوں لوگ کیسے بھول جاتے ہیں۔۔۔وہ بات اریج سے کر رہی تھی پر نظریں شازل پر تھی جو شاید بینا اسکی بات پر کان دھرے کمرے میں جا چکا تھا۔۔۔۔ آپی دیکھے میں آپ کے لیے مہندی لائی ہوں۔۔۔مجھے بہت اچھی مہندی لگانی آتی ہے۔۔۔وہ چہکتے ہوۓ بتا رہی تھی۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔پر ابھی میرا دل نہیں ہے میں پھر کبھی لگواؤں گی۔۔۔ ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔۔اریج اداسی سے بولی جیسے اسے ہانیہ کا انکار کرنا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔ مجھے مہندی والے ہاتھ بہت پسند ہے تم بھی اپنے ہاتھو پر مہندی لگایا کرو۔۔۔اسے شازل کے دو سال پہلے کہے ہوۓ الفاظ یاد آئے۔۔۔ اریج جانے ہی لگی تھی جب ہانیہ نے اسے آواز دی۔۔۔ آجاؤ لگاؤ مہندی۔۔۔۔ہانیہ نے اپنے دونو ہاتھ اسکے سامنے کیے۔۔۔ آپ سچ کہہ رہی ہیں۔۔۔میں سچ میں آپ کے ہاتھ پر مہندی لگاؤ۔۔۔اریج نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔ جی میری جان بلکل سچ۔۔۔چلو لان میں چلتے ہیں وہاں آرام سے لگانا۔۔۔ جی ٹھیک ہے آپی۔۔۔کہتے ہوۓ اسکے ساتھ ہو لی۔۔۔


چچا مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ہانیہ ہچکیچاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ بولو کیا بات کرنی ہے۔۔۔تنویر صاحب نے سرد لہجے میں جواب دیا۔۔۔عالیہ بیگم بھی انکے ساتھ بیٹھی تھیں۔۔۔ مجھے جاب کرنی ہے۔۔۔ اسکی بات پر دونو چونکے۔۔۔کیا کررہی ہو تم۔۔۔تمہارا دماغ تو نہیں خراب۔۔۔عالیہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔ چچی میں اپنی اولاد کا خرچہ خود اٹھانا چاہتی ہوں۔۔۔ہانیہ نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔۔ جو بھی ہے لیکن تم اس گھر سے قدم باہرنہیں نکالو گی۔۔۔تنویر صاحب سنجیدگی سے بولے۔۔۔ پر کیوں چچا میں کیوں نہیں گھر سے نکل سکتی۔۔۔کیوں میں آپ کے دیے ہوۓ خرچے پے زندگی گزاروں۔۔۔ بس اس بات پر کوئی بحث نہیں ہوگی۔۔خاندان والے ہم پر تھوکے گے کہ ہم تمہارا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔۔۔جوان ہو طلاق یافتہ ہو۔۔۔اور تمہاری بیٹیاں وہ کون سمبھالے گا۔۔۔ تنویر کی بات پر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔اسکی بچیاں چھوٹی تھیں وہ کس کے سہارے انھے چھوڑ کر جاۓ گی۔۔۔ اب کھڑی کیوں ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔عالیہ نے اسے بت بنے دیکھ کر کہا۔۔۔ انکو آواز پر وہ چونکی۔۔۔اور فوراً چلی گئی۔۔۔


نانو کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔؟؟ہانیہ نے کچن میں داخل ہوتے ہوۓ ان سے پوچھا۔۔۔ شازل کے لیے کوفی بنانے لگی ہوں۔۔۔اسے کسی اور کے ہاتھ کی پسند جو نہیں ہے۔۔۔نانو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ اگر میں بناؤں تو۔۔۔؟؟ دیکھ لو۔۔۔وہ کبھی کبھار ہی پیتا ہے۔۔۔یہ نا ہو کہ کبھی کبھار بھی پینا چھوڑ دے۔۔۔نانو نے شرارت سے کہا۔۔۔ نہیں نانو اب ایسی بھی بات نہیں مجھے بہت اچھی کوفی بنانی آگئی ہے کہے تو آپ کے لیے بھی بنا دوں۔۔۔ نہیں بھئی مجھے نہیں پینی تم شازل کے لیے ہی بنا دو۔۔۔اور یہ مہندی تو بہت اچھی لگ رہی ہے تمہارے ہاتھ پر۔۔۔اریج تو بہت اچھی مہندی لگاتی ہے۔۔۔نانو نے دل کھول کر اسکی تعریف کی۔۔۔ سہی کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔میں تو خود بہت حیران ہوئی تھی اسے مہندی لگاتے دیکھ کر۔۔۔۔پر لگاتی بہت سلو ہے۔۔میں تو تھک گئی تھی۔۔۔ تو پھر اتنی زیادہ نہیں لگوانی تھی نہ۔۔۔ اب وہ کیا بتاتی اس نے یہ مہندی کس وجہ سے لگوائی ہے۔۔۔پھر سر جھٹک کر انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ وہ اتنے پیار سے لگا رہی تھی نانو کے مجھ سے انکار ہی نہیں ہوا۔۔۔اسلیے خاموشی سے لگواتی رہی۔۔۔ہانیہ نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔ اور ہانیہ کے جواب پر نانو ہنس دی۔۔۔ چلو اب جلدی سے کوفی بنا کر شازل کو دے آؤ۔۔۔کہتے ہوئے کچن سے چل دی۔۔۔


آپ کی کوفی۔۔۔ہانیہ اسکے قریب سائیڈ ٹیبل پر کوفی کا مگ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔ شازل نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔ تھنکس۔۔۔اسنے مختصر جواب دیا۔۔۔اور واپس اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز کر لی۔۔ ہانیہ نے حسرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔اسے لگا تھا شاید وہ اسکی تعریف کریں گا۔۔۔اس نے جو ایک گھنٹہ لگا کر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگوائی تھی وہ دیکھیے گا۔۔۔پر شاید یہ حسرت اسکے دل میں ہی دفن ہو کر رہ جاۓ گی۔۔۔ اسکی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے شازل نے پھر سے اسے دیکھا۔۔۔ کوئی بات کرنی ہے۔۔۔اسکے ہر انداز سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔۔۔جس سے ہانیہ کو شدید نفرت تھی۔۔۔ نہیں کوئی بات نہیں کرنی تھی۔۔۔سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے واپس جانے کے لیے مڑی۔۔۔شازل کی اس قدر بے رخی پر ہانیہ کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے تھے۔۔۔ مہندی اچھی لگ رہی ہے۔۔۔سیدھے ہاتھ پر زیادہ گہرا رنگ آیا ہے۔۔۔ شازل کی بات پروہ ایک پل کے لیے ساکت رہ گئی۔۔۔اور فوراً مڑ کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔جو ابھی بھی لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔۔۔ پر وہ اسکی بات پر کھل اٹھی تھی۔۔۔اور مسکراتے ہوۓ روم سے چلی گئی۔۔۔۔ کیوں آزماتی ہو مجھے۔۔۔کاش تم حقیقت کو سمجھو۔۔۔قسمت بدلتی دیر نہیں لگتی۔۔۔اسکے جاتے ہی شازل خود كلامی کرنے لگا۔۔۔ 💔💔💔💔💔

   0
0 Comments